Manzar Ansari

Add To collaction

19-Feb-2022 لیکھنی کی کہانی - آنکھوں سے چھلکتا درد ۔۔

آنکھوں سے چھلکتا درد ۔۔۔۔۔ part 1St 



صبح فجر کی نماز کے بعد گھر کے کام سے فارغ ہو کر میں موبائل لیکر بیٹھ گئی ،
لکھنے کا شوق تھا ،خاموشی کو لفظ دینے کے لئے ہی شاید خدا نے میری تخلیق کی تھی ،میں اور اپّی بہت چھوٹے تھے۔جب امی ابّو کا انتقال ہو گیا تھا۔بھائی ہم سب بہنوں سے بڑے تھے ۔
وہ امریکہ چلے گئے تھے۔امی سے چھوٹی دو بہنیں تھی، ایک صوفیہ آپی کو اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔
دوسری مجھے لے آیئں تھی ۔
ہستا کھیلتا پریوار تھا ہمارا ،لیکِن سب اُجڑ گیا تھا ابّا کہا کرتے تھے ،ایک دن سب دور ہو جائینگے  ۔
میری بیٹیاں اپنے سسرال چلی جائینگی ۔بیٹے کی شادی ہو جائیگی ہم دونوں ہی بس رھ جائیںگے ۔
لیکن ایسا کہاں ہوا ۔
سب سے پہلے تو ابّا اور اماں ہی چھوڑ کر چلی گئیں
بیٹیاں اکیلے کیسے رہینگی یہ کہ خالہ اپنے ساتھ لے گئیں ۔لوگوں کو تنہاسامان بانٹا ہے ۔
ہمارا تو پریوار بنٹ گیا تھا ۔
کہتے ہیں بھائی باپ کے مانند ہوتا ہے ۔
لیکن ہمارا بھائی تو بھائی ہی نہ بن سکا ۔
خیر اللہ کی رضا میں راضی رہنا پڑتا ہے ۔
  شام کے پانچ بجے صوفیہ آپی کا فون آتا تھا ۔
وہ اپنے دل کا حال جب بیان کرتیں  تو آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے تھے ۔
لوگ کہتے ہیں ۔خالہ ماں کی طرح ہوتی ہے ۔
لیکن ہماری خالہ تو انسان ہی نہیں تھی ۔تو ماں کیسے ہو سکتی تھیں ۔ 
دنیاں جہان جانتا تھا ،کہ خا لہ بھانجوں کی سرپرستی کرتی ہیں ایسا نہیں تھا ۔
صوفیہ آپی مجھسے بڑی تھیں ۔
لیکن بہُت معصوم تھیں۔
خدا قسم اگر میں وہاں ہوتی تو اُن کو ناک سے چنے نے چبا دیتی تو میرا نام بھی زینب نہ ہوتا ۔۔
مگر وہ خالہ کے ہر ظلم کو سہتی رہتی تھی ۔
ایسا نہیں تھا کی سعدیہ خالہ مجھسے پیار کرتی تھیں ۔لیکِن مجھسے وہ کم الجھتی تھیں ۔
ظاہر جواب جو ہوتے تھے میرے پاس ۔۔
اگر کچھ کہتیں تو میں نسیم خالو کو بتا دے تیں جو میرے تایا ذات بھائی تھے۔
خل لہ سے اُنہیں پھر خوب ڈانٹ پڑتی میں اُدھر کھانے والوں میں سے نہیں تھی ۔
اس ہاتھ دو اُس ہاتھ لو ۔۔
آپی کو میں بہت سمجھاتی تھی۔
بولا کریں ،جواب دیا کریں ۔۔
لیکن ان سے کچھ نہیں ہوتا ۔۔
زین بھائی خالہ کے بڑے بیٹے اُس گھر میں واحد شخص تھے ۔جو صوفیہ آپی کی پرواہ کرتے تھے۔

ہم دونوں بہنیں ایک دوسرے سے جدا ہو گئی تھیں
بہُت یاد آتی تھی امی ابّو کی گلے لگ کر رو بھی نہیں پا تی تھی۔
اتنا بڑا پریوار تھا ہمارا سب تباہ ہو گیا تھا ۔
اتوار کی چھٹی کے دن میں اُن سے ملنے چلی جاتی تھی ۔ہم دونوں بہن بیٹھ کر خوب گپشپ لگایا کرتے تھے۔
زین بھائی بھی گھر پر ہی تھے۔کافی عرصے کے بعد دبئی سے لوٹے تھے۔
خالہ بہُت خوش معلوم ہو رہی تھیں ۔
جیسے افریقہ سے لوٹے ہوں
مجھے واقعی میں خالہ اور اُن کا بیٹا بلکل اچھے نہیں لگتے تھے۔
ہا  تھوڑا خیال رکھتے تھے ۔
صوفیہ آپی کا لیکن تھے تو نور جہاں کے ہی بیٹے جنکی زبان سے اچھے الفاظ کبھی دھوکے سے بھی نہیں نکلتے تھے۔
زمانے کو دیکھنے کے لیے بھانجی کو رکھا تھا ۔
لیکن اندر سے شعلے بھرے تھے۔
اللہ جانے  ایسے لوگوں کا کیا ہوگا ۔
شام کا وقت ہو گیا تھا ۔
آپی نے مجھے روک لیا تھا ۔
مختلف رنگ کا کھانا بنا تھا ۔
ٹیبل پر بیٹھ کر لوگ کھانا کھا رہے تھے۔
زین بھائی نے میری طرف پلیٹ دیتے ہوئے کہا ۔
کھاؤ زینب اچھے سے کھاؤ ۔
خالہ نے اس پر بڑے غرور سے کہا ۔
کھاؤ بیٹا جو مرضی آئے کھاؤ ۔
ہمارے یہاں سعیدہ کے گھر کی طرح ناپ تول کر کھانا نہیں بنتا ہے۔
میں کچھ کہتی آپی نے میرا ہاتھ تھام لیا ۔
لیکن پھر بھی میں نے کہ ہی دیا ۔
خالہ ذرا سنبھل کر خرچ کیا کریں ۔
زین بھائی دبئی سے گنجی کر کر کے پیسہ لاتے ہیں خالہ کا غصّہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
بدتمیز لڑکی بولنے کا سلیقہ نہیں ہے تمہیں بلکل بھی، سکھائے بھی کون ماں سکھاتی وہ تو مر گئی۔زین بھائی اپنی امی کو روک رہے تھے ۔
امی کیا بول رہی ہو ۔
مذاق کر رہی تھیں زینب ۔
میں کھانے کی ٹیبل سے اٹھ کر باہر آگئی ۔
پیچھے سے آپی بھی آگیئں
میری آنکھوں سے اشک جاری تھے۔
میرے آنسوں پوچھتے ہوئے بولی ۔
مت رو میری جان ،میں پیچھے موڑی اور بولی آپی میں اپنے لیے نہیں رو رہی ہوں میں آپ کے لیے رو رہی ہوں ۔
کیوں رورہی ہیں آپ بہنا۔ہمارا اپنا گھر ہے اگر آپ سعیدہ خالہ کے گھر نہیں جانا چاہتی تو ہم اپنے گھر جائینگے اپنے گھر رہینگے ۔
جہاں ہمارے ابّو امی کی یادیں ہیں۔ہمارا بچپن گزرا ہے جہاں آپی ہم لاواث ضرور ہیں ۔لیکِن بےگھر نہیں ۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی ہم دونوں بہنیں اپنے گھر چلےگئے ۔
اپنے ابّو امی کے گھر جہاں چین سکون تھا ۔
سب سے اچھی بات ہم دونوں بہنیں ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے تھے۔
صبح ہوتے ہی سعیدہ خالہ کا فون نور جہاں خالہ کے پاس پہنچ گیا ۔ زینب ابھی گھر کیوں نہیں لوٹی ہے۔
نور جہاں نے کہا تمہاری بھانجیاں یہاں نہیں ہیں 
وہ اپنے گھر چلی گئیں ہیں۔
سعیدہ خالہ نے کہا گھر چلی گئیں ۔صوفیہ تمھاری زمہ داری ہے ۔اور اپنی زمہ داری کو نبھاؤ ۔
اس سے بھاگو مت ۔۔ 
نور جہاں خالہ نے کہا میں اپنی زمہ داری نبھا رہی ہوں وہ تمہاری زبان دراز بھانجی میری ذمے داری میں رکاوٹ بن رہی ہے۔۔۔


انگڑائی لیتی ہوئی میں باہر آکر بیٹھ کر گئی ۔۔
آپی آپنے کر لیا ناشتہ ،
نہیں ابھی نہیں کیا ،گھر میں کام بہُت تھا ۔اس لیے سوچا پہلے کر لو پھر ناشتہ کرونگی ۔
میں بڑی غور سے آپی کے چہرے پر دیکھ رہی تھی ۔
وہ شاد تھی ۔مطمئین بلکل ۔
میں مسلسل اُنہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔
میری طرف نگاہیں کر کے آپی بولی کیا دیکھ رہی ہوں ۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اللہ ہمیں ہمیشہ ساتھ رکھیں صوفیہ آپی نے کہا آمین ۔۔
زینب بولی آپی ہم نہ ایک ہی گھر میں شادی کرینگے ۔تبھی ہم لوگ ساتھ رھ سکتے ہیں ۔
جب آپکی شادی ہوگئی تو آپکا دیور ہوگا ۔
میں اسے ہی پھنسا لونگی ۔
آپی نے میرے سر پر ایک مارتے ہوئے کہا ۔
پاگل ہو تم ۔۔
پیچھے سے زین کی آواز آئی ۔
اگر صوفیہ کا کوئی دیور نہ ہوا تو ۔
زینب نے زین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
 میں ایسے گھر میں آپی کی شادی کرونگی ہی نہیں جہاں پر اُن کا کوئی دیور نہ ہوں ۔
زین آکر صوفیہ کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
ویسے زین بھائی آپ نے یہاں آنے کی تکلیف کیسے کی ،زین نے صوفیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،
اپنے گھر کی رونق کو لینے آیا ہوں ۔
جیسے کوئی نامراد  لڑکی لیے آئی ہیں۔
ویسے بھائی آج مجھے یقین ہو گیا ہے ۔کہ آپ نور جہاں بیگم کے ہی صاحب زادے ہیں۔
ذین نے صوفیہ کی طرف دیکھا اور کہا چلے ۔
زینب فوراً  بولی اؤ کون ہوتے ہیں آپ صوفیہ آپی کو لے جانے والے ۔۔۔
وہ میری بہن ہے۔ وہ کہیں  نہیں جائینگی ہم کوئی لا ورث نہیں ہے ۔کیوں رہے ہم دوسروں کے ٹکڑوں پر 
زین نے میرا ہاتھ پکڑا اور بولا زینب میں صوفیہ کو با عزت رکھونگا اب میں ہمیشہ کے لیے یہاں آگیا ہوں 
اب میں ہمیشہ گھر ہی رہونگا ۔
صوفیہ کا خیال میں اچھے سے رکھونگا ۔۔۔
یقین رکھوں ۔۔۔۔
صوفیہ کے دل میں زین کے لیے عشق کی ہلکی ہلکی مہک پیدا ہو رہی تھی ۔
جو ابھی زیادہ باہر نہیں آئی تھیں  ۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد صوفیہ گارڈن میں بیٹھی ڈائری میں کچھ لکھ رہی تھی ۔
پیچھے سے زینب بھی آگئی ۔
صوفیہ کو دیکھ کر بولی آپی آپ بھی ڈائری لکھتی ہے ۔ماشاءاللہ  میں تو سوچتی تھی لکھنے کا نذرانہ خدا نے مجھے ہی دیا ہے ۔
صوفیہ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
زینب اوپر آسمان میں دیکھوں کتنے سارے پرندے ہیں۔امڈتے گھمڑتے بادل کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں ۔
لیکن آج ان کی خوبصورتی میں کچھ کمی سی لگ رہی ہے ۔آپی نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔زینب آج پتہ ہے ۔یہ آسمان آج اتنا حسین کیوں نہیں لگ رہا ہے ۔کیوں کہ آج میرا دل مطمئن ہے ۔جو خوشی میں اس آسمان میں ،ان بے زبان پرندوں میں محسوس کرتی ہوں،آج وہ پھیکی لگ رہی ہیں۔
کیوں کہ تم میرے پاس ہو ،
بہُت دیر سے کاغذ قلم لیے بیٹھی تھی۔
مگر مضوع ہی نہیں ملا ۔
 زینب نے آپی کو گلے لگا لیا،زین دو بہنوں کا پیار دیکھ رہا تھا ۔کچھ دیر بعد زین بھی وہیں جاکر بیٹھ گیا ،صوفیہ نے اپنی نگاہیں نیچی کر لی تھیں۔
محبت کا سرور کہیں زین کو اسکی آنکھوں میں دکھائی نہ پڑنے لگے۔صوفیہ بہُت کم بولتی تھی ۔
لیکن زینب زین سے لڑتی جھگڑتی پھر ویسے ہی بولنے لگتی ۔
صوفیہ کی طرف دیکھتے ہوئے زین نے کہا ،
زینب مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی صوفیہ واقعی میں کم بولتی ہے ۔یا صرف میرے سامنے ہی کم بولتی ہے ۔
مجھے تو یقین ہوتا نہیں ہیں ،تم صوفیہ کی بہن ہو 
کیا بات ہے ،آپ بھی ،






Muntaha siraj ۔۔۔۔۔


   9
5 Comments

Arshi khan

23-Feb-2022 05:52 PM

Good

Reply

Simran Bhagat

20-Feb-2022 07:29 PM

Nyc

Reply

asma saba khwaj

19-Feb-2022 09:03 PM

Bhut khoob

Reply